Friday, April 6, 2018

پنجگور(راہشون)نیشنل پارٹی کے مرکزی کلچر سیکرٹری مبارک علی بلوچ، سابق سینٹر و سابق قومی اسمبلی کے ممبر منظور گچکی، ایڈوکیٹ شہبازبلوچ،جمال شکیل، و انکے ہمراہ ضلعی انفارمیشن سیکرٹری میر عباس بلوچ، ایڈوکیٹ محمد حیات، تحصیل جنر ل سیکرٹری پنجگورحفیظ سجاد بلوچ، سابق ڈپٹی جنرل سیکرٹری حاجی محمد بخش بلوچ، واجہ نورحسین،واجہ عصمت عزیز بلوچ،غلام جان ایڈوکیٹ، کامریڈ یاور عباس و دیگر نے سراوان میںمشترکہ پریس کانفریس میںنیشنل پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نئی پارٹی (بلوچ عوامی محاذ) کا ڈاکٹر مبارک علی بلوچ کی سربراہی میں اعلان کردیا اور پانچ رکنی رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی نئی پارٹی کا جھنڈا ریڈ گرین سفید سے جان جائےگا جدوجہد خوشحالی امن سےاپنے پریشان مظلوم کی رہنمائی کرے گی جنکا مخفف (BAM) ہوگا بام کا مطلب ظلم جبر نابرابری و دیگر سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کرنے کا ہے انہوں نے کہاہے کہ بلوچستان کی حقیقی سیاست کا محور ہمیشہ مکران رہاہے ہر ترقی پسند جمہوری وطن دوستی سیاسی تبدیلی کا آغاز مکران سے ہی ہوا ہے، مکران
نے سیاست میں اول دستے کا کردار ادا کیا ہے، بی ایس او،بی ایس او عوامی،بی این وائی ایم، بی این ایم، بی این ڈی پی سے نیشنل پارٹی تک کے وجودمیں مکران ہی رہا ہے ،

 مظلوم قومی تحفظات و خدشات کے باوجود نیشنل پارٹی
کو بلوچوں کی قومی پارٹی سمجھ کر دل وجان سے قبول کرتے ہوئے بی این ڈی پی کی اقلیت کو بی این ایم کی اکثریت پر قابض کرنے کی خواہش کو محسوس کرنےکے باوجود بھی میر حاصل خان بزنجو ،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عبدالحئی اورشہید میر مولابخش دشتی میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں سمجھا، سب شہید فدااحمد بلوچ اور قائد میر غوث بخش بزنجو کے فکر اور فلسفے کے ماننے والےہیں آج وہی قومی پارٹی روایتی پارٹی میں تبدیلی ہوگیا، نیشنل پارٹی نےپنجگور کے 80فیصد روح روان جو BNYM سے این پی کے تھے ان مظلوموں کو کھلم کھلا بیچ سمندر کے لہروں کے حوالے کردیا،انہوں نے کہاہے کہ 51سالوں سےمیں اسی پارٹی کے ساتھ سیاست کرتا چلا آرہاہوں ،نصف صدی گزری تب احساس ہوا کہ میرے کاروان کے دوستوں نے مجھے نہیں بلکہ بلوچستان کے لاکھوں محنت کش عوام ،کسان ،مزدور ،شوانگ، ماہی گیر،ماسٹر کلرک سماج کے پسماند ہ عوام کو دھوکہ دیا ہے

پچاس سال کی جد وجہد کے بعد جب ہماری جماعت بی این ایم
بعد میں این پی کسی طرح بلوچستان کی حکومت تک پہنچی وزارت اعلی ان رہنماﺅں کو ملی تب میری پارٹی رہنماﺅں نے اپنی اصل صورت دکھا ناشروع کیا،نیشنل پارٹی نے کبھی نظریاتی دوست کو کوئی بہتر سماج نہ دے سکا،انہوںنےکہاہے کہ ہم نے نیشنل پارٹی کو اس لئے خیر باد کیا کہ نیشنل پارٹی نے اپنا قبلہ تبدیل کرکے اپنی سیاسی نظریات سے انحراف کیاہے،ان رہنماﺅں نےدانستہ طور پر پارٹی کو ڈی پولٹیکلائیز کرکے تنظیم کو ختم کرکے چند فردکو بااختیار کرکے دانستہ بلوچستان سے جمہوری سیاست کا دھڑن تختہ کردیا ہے، نیشنل پارٹی نے مرکزی سطح پر اقرباءپروری کنبہ پرستی فیوریٹ ازم ،ذاتی دوستی کی اعلی مثالیں قائم کرکے الزامات سے بڑھ کر جرم ثابت ہونے کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں قائم کئے ہیں،نیشنل پارٹی یاسابق بی این ایم جس کا صدر ڈاکٹر عبدالحئی تھے اس پارٹی کے آئین میں جاگیر داری اورسرداری نظام کی مخالفت تھی مگر آج کے نیشنل پارٹی کی قیادت میں فیصلے کن اداروں میں سیاسی جمہوری اور ورکنگ کلاس کے نظریاتی دوستوں کو دانستہ
نکال باہر کرکے فیصلے سازادروں میں سرداروں کو بٹھا یا ہے جو ہمارے پچاس سالہ سیاست کا شیوہ نہیں تھا ،

نیشنل پارٹی کے بہت سے فکری نظریاتی دوست شہید ہوئے ہم نے ان طالب علم رہنماﺅں نے انکی شہادت کے دن منائے اور ان شہیدوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا لیکن آج کے نیشنل پارٹی میں وہ نہیں ہے،نیشنل پارٹی کسی زمانے میں مظلوم طبقات کی نمائندہ جماعت تھی مگر2013کے حکومت ملنے کے بعد مظلوم طبقات سے دانستہ رشتہ توڑ کر درباری کلچر کو فروغ دیا،انہوں نے کہاہے کہ پارٹی پہلی مرتبہ 1988میں عام انتخابات میں BNYMکے نام سے BNAکے پلیٹ فار م نواب اکبر الائنس کیا پونے دوسال تک حکومت میں رہے حکومت کے خاتمے تک کرپشن کا ایک بھی الزام کسی مخالف نےبھی نہیں لگایا ،دوسری مرتبہ 1993تک حکومت میں رہی کرپشن کا الزام کسی مخالف نے کبھی نہیں لگایا ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چہ جائے کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو نے اس عوامی سیاست کو ایماندارنہ سیاست کو مذید آگے بڑھاتے مگرالٹاپورے پاکستان میں کرپشن کے الزامات اورواقعات کی شہرت ہمارے حصے میں آئی،نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں نے اپنی دورمیں غریب پھسے ہوئے طبقے کو بے روزگار ی کی دلدل میں پھینک کر اپنےخاندانوں اور اشرفیہ کو بہتر سے بہتر نوکریاں بغیر انٹریو کے گھروں میں اپوائنمنٹ لیٹر تھما دئے گئے،انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے کہاہے کہ
آج سے ہم نیشنل پارٹی کی غلامی سے آزاد ہوئے ہیں جو جو نیشنل پارٹی سےوابستہ ہیں وہ آنے والے وقتوں میں جدید غلامی کے شکار ہونگے اس پلیٹ فارم میں سب کو دعوت دیتے ہیں اپنی مستقبل کو روشن کریں۔

Saturday, March 31, 2018

پنجگور(راہشون)بلوچستان نیوٹریشن پروگرام فار مادر اینڈ چلڈران کےزیر اہتمام ماں اوربچوں کی غذائی قلت کے حوالے ایک سیمینار  گرلز ڈگری کالج میں انعقاد کیاگیا یہ سیمینار ورلڈ بینک کی تعاون سے کیاگیاتھا جس میں شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے تمام ڈپیارنمنٹ نے حصہ لیا اور سوشل ورکر و شعبہ ہیلتھ کے بے شمار یونٹس نے شرکت کی اس سیمنیار کے مہمان خاص اے سی پنجگورظفر بلوچ،بوائز ڈگری کالج پنجگور کے پرنسپل محمد حسین،ڈاکٹر شکیل تھےاورمختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے آفیسر ان نے شرکت کی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایچ او ڈاکٹر شکیل احمد،ڈی این او امداد بلوچ ڈاکٹر صبینہ بلوچ ،اے سی پنجگور ظفر بلوچ اسد شاہ،امجد حمید و دیگر نے کہاہے کہ ایک صحت مند ماں ایک صحت مند بچے کو جنم دے کر اسکی اچھی پرورش کرسکتی ہےپورے معاشر ے میں بہتری اس وقت ممکن ہوگی کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول میں ماں اور بچوں کی غذائی قلت کے حوالے شعور آگاہی دین دنیا میں تبدیلی کا واحد و بہترین ذریعہ شعور آگاہی ہے ،اس وقت پاکستان میں بڑی تعداد میں ماں بچےکو شدید غذائی قلت کاسامنا ہے جس کی وجہ سے بچے اور ماں کی زندگیوں کومختلف قسم کے بیماریوں اور جسمانی خطرات کا سامنا ہے ،بلخصوص بلوچستان میں حاملہ خواتین اور بچے پچاس فیصد شدید غدائی قلت کے شکار ہیں اس کےتدارک کیلئے ہم سب کو مل کر جنگی بنیادوں پر ہر گھر گھر میں یہ پروگرام پہنچانا ہے ،غذائی قلت کے مختلف اقسام اور انکی نشانیاں ہیں لاغر و کمزورہونا، خونی کی کمی ،پاﺅں ہاتھوں میں کمزوری محسوس ہونا آنکھوں ،اور چمڑےمیں انکی نشانیاں موجود ہیں بچے کو ماہ کی پیدائش  کے فورا بعدماں کا دودھ پلانا چائے ،اور چھ ماہ کے تک بچے کو ماں کے دودھ کے سواپانی تک نہیں دینا ہے اور چھ ماہ کے بعد بچے کو نرم غذا دینا ہے جس سے بچے غذائی قلت سے بچ سکتا ہے ،پروگرام کے آخری میں بہتر کارکردگی دکھانےوالوں میں شیلڈ و دیگر تقیسم کئے۔